حضرت آیت اللہ العظمیٰ محمد ابراہیم جناتی سن 1311 ہجری شمسی میں شہرود میں پیدا ہوئے۔ اپنے باپ کی ایما پر آپ نے چھ سال کی عمر میں قرآن مجید اور ادبیات فارسی کا سیکھنا شروع کر دیا اور گیارہ سال کی عمر میں شہرود کے حوزہ علمیہ میں داخلہ لیا۔ چار سال کی مدت میں مقدمات اور سطح عالیہ کے دروس تما م کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ابھی آپ کی عمر اٹھارہ سال کی نہیں ہوئی تھی کہ آپ نے سطح کے دروس اصول و فقہ کے ہمراہ منظومہ سبزواری کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ۔ تحصیل علم کے باقی مراحل کو طے کرنے کے لئے آپ نے مشہد مقدس کا رخ کیا ۔اور وہاں کے حوزہ علمیہ کے اساتید کے دروس سے کافی فائدہ اٹھایا ۔
پھر کچھ مدت کے بعد قم روانہ ہوئے اور آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کے درس خارج فقہ اور امام خمینی (رح) کے درس خارج اصول میں شرکت کرکے تحصیل علم کو جاری رکھا ۔ اس کے بعد نجف اشرف کی طرف ہجرت کی اور پچیس سال تک وہاں کے علمی مرکز میں قیام پذیر رہے اس مدت میں آپ نے حوزہ علمیہ نجف کے مایہ ناز اساتید جیسے آیات عظام ، شاہرودی ، حکیم ،شیرازی ، حلی ، زنجانی اور خوئی سے علمی فیض حاصل کیا ۔
تحصیل علم کے ساتھ ساتھ رسائل اور شرح لمعہ کی تدریس اور نیز تالیفات کا آغاز بھی کردیا ۔ حوزہ علمیہ نجف میں سطح عالیہ کی کتابوں(رسائل ، مکاسب ، کفایہ) کو گیارہ سال تک مجموعی طور پر تین مرتبہ پڑھایا ۔اسی طرح نجف اشرف میں اپنی سکونت کے آخری سالوں میں مدرسہ بزرگ مرحوم آخوند خراسانی میں درس خارج اصول کو تدریس کیا ۔نجف میں بہت سی کتابوں کو تالیف کیا ، جس میں مرحوم آیت اللہ العظمیٰ شاہرودی کے درس خارج کی تقریرات کو پانچ جلدوں کے نفیس مجموعہ میں فقہی معارف کے پیاسوں کی خدمت میں پیش کیا۔
سن 1358 ہجری شمسی میں ایران واپس آئے اور قم المقدس میں قیام پذیر ہوئے آپ نے تدریس و تالیفات اور علمی مقالات کا کام پہلے کی طرح جاری رکھا ۔قم میں درس خارج فقہ و اصول کو حوزہ کی مروجہ روش کے مطابق اور فقہ واصول اور علوم قرآن وحدیث جیسے موضوعات کو تطبیقی روش کے مطابق پڑھانے میں ہمیشہ مشغول رہے اور ہیں ۔
معظم لہ وہ پہلی علمی شخصیت ہیں جنھوں نے فقہ ، اصول ، علوم قرآن و حدیث کوحوزہ علمیہ قم میں تطبیقی شکل و صورت میں ایک سو اڑتیس فقہی مذاہب میں سے بائیس مذاہب ( امامیہ ، حنفیہ ، مالکیہ ، شافیہ ، حنبلیہ ، زیدیہ ، اباضیہ ، ظاہریہ ، اوزاعیہ ، ثوریہ ، لیثیہ ، راہویہ ، نخعیہ ، تمیمیہ ، طبریہ ، جبیریہ ، کلبیہ ، شبرمیہ ، ابن ابی لیلیٰ ، زہریہ ، عیینیہ اور جریحیہ ، )کے نقطہ نظرکے مطابق پڑھایا ہے کہ جو تاریخ فقہ اسلامی میں موجود ہیں ۔
یہ دروس بعض نسخوں میں اسلامی مذاہب کے نقطہ نظر سے مرتب کئے گئے ہیں جن میں بعض چھپ چکے ہیں جیسے فقہ مقارن ، منابع اجتہاد ، ادوار اجتہاد ، ادوار فقہ اور مناسک حج ، اور بعض چھپنے کے مراحل میں ہیں جیسے علوم قرآن اور حدیث وغیرہ ۔
آپ کے آثارو تالیفات اور علمی نظریات اب تک دسیوں کتابوں ، سینکڑوں مقالوں ، تقریروں اور انٹرویوز پر مشتمل ملک کے داخل اور خارج میں مختلف زبانوں میں منتشر ہو چکے ہیں ۔
حضرت آیت اللہ العظمیٰ جناتی نے اب تک ایران کے اندر اور باہر بہت سے سمیناروں اور کانفرنسوں سے خطاب کئے ہیں اور کثیر تعداد میں داخلی اور بیرونی اخباروں اور رسالوں میں انٹرویوز بھی معظم لہ کے مزید علمی اور ثقافتی کوششوں میں شامل ہیں ۔ان تقریروں اور انٹرویوز میں آپ نے مفصل طور پر اپنے فتوؤں اور نظریات و آراء کو بیان فرمایاہے ۔
مثال کے طور پر آپ نے ایران کی یونیورسٹیوں اور شہروں کے علاوہ برمنگم یونیورسٹی میں (سمینار ، مقدس متون میں عقل کا مقام) اور استنبول یونیورسٹی میں ( سمپوزیم ، ماضی اور حال میں شناخت شیعہ) دمشق یونیورسٹی میں( سمینار ، فقہ تطبیقی اور اجتہادی راہیں ) مکہ اور مدینہ میں ( مذاہب اسلامی اور حج کانفرنس) اور قماطیہ میں ( سمینار بحوث اسلامی) کے موضوعات پر مقالات پیش کئے اور تقریریں کیں ۔
ایران ، پاکستان ، ہند ، فرانس ، انگلینڈ اور آمریکہ کے مختلف رسالوں اور اخباروں نے ہمیشہ معظم لہ کے اراء ، نظریات اور فتاویٰ کوشایع اور منتشر کیا ہے جن میں سے بعض رسالے اور اخبار مندرجہ ذیل ہیں ۔کیہان ، اطلاعات ، ایران ، جمہوری اسلامی ، ابرار ، قدس ،رسالت ، بعثت ، سلام ، کیہان ہوائی ، زن ، ہمشہری ، تہران ٹائمز ، کیہان اندیشہ ، کیہان فرہنگی ، زنان ، میراث جاویدان ، زا ئر ، میقات حج ، اندیشہ حوزہ مشہد ، فرزانہ ، نور علم ، تبیان ، ادبستان ، کوثر ، پیک یاران ، ماہان ، ایران جوان
،سروش ، العدل ، صوت الاسلام ، الثقافۃ الاسلامیہ ، الفکر الاسلامی التوحید ، المبلغ الاسلامی ،٠٠٠
آپ نے اب تک بہت سے جدید مسائل پر مستقل طور پر تحقیق کی ہے اور ان کو زمان و مکان ، عرف اورمعاشرے کی ضرورت اور اجتہادی فقہ و تحقیق کے اصلی عناصر کے بنیادی شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کو علمی محافل اور ثقافتی مراکز اور نشریات میں بیان کیا ہے اسی بنا پر آپ نجف اور قم میں برگزیدہ علماء کی صف میں شامل ہوگئے آپ نے اپنے عمیق نظریات کے ذریعہ فقہ کے میدان میں تحقیق کر نے والوں کے لئے جدیدراہیں ہموار کی ہیں ۔
جدید نظریات وآراء جیسے اجتہاد میں زمان و مکان کا نقش ، منصب قضاوت پر عورتوں کے فائز ہونے کا جواز ، مرجعیت کے مقام پر عورتوں کے فائز ہونے کا جواز ، اور تمام سیاسی ، سماجی وظائف میں عورتوں کی شرکت کا جواز ،انسان کی طہارت کا مطلق طور پر ذاتی ہونا ، اہل کتاب کے ذبیحہ کا پاک ہونا ، ادنیٰ الحل سے میقات کا جائز ہونا ، ہنر و فن کے عنوان سے مجسمہ بنانے کا جواز ، لڑکیوں کے بالغ ہونے میں خاص سن کا معین نہ ہونا ( صرف عادت ماہانہ ہی لڑکیوں کے بالغ ہونے کی علامت ہے ) اور نیز موسیقی ، ہنر ، پردہ وغیرہ کے بارے میں جدید نظریات آپ کے جملہ آثار میں شمار ہوتے ہیں ۔
آپ نے اپنی توضیح المسائل میں جو تین ہزار سے زائد مسائل پر مشتمل ہے ان تمام احتیاطات کو اپنی اجتہادی روش اور تحقیق کے اصلی عناصر کی بنیاد پر صریح فتووں میں تبدیل کیا ہے جو عام طور پر رسالوں میں رائج ہیں اور جو سو سے زائد موارد پر مشتمل ہیں آپ نے ہر مسئلہ کے بارے میں اپنی قطعی اور واضح نظر کو بیان کیا ہے آپ کی منا سک حج بھی ایک ہزار چار سو سے زائد مسئلوں پر مشتمل ہے جو اب تک کی شائع شدہ مناسک حج میں جامع ترین اور کامل ترین ہے ۔