عرصہ دراز سے حوزات علمیہ میں سطح عالیہ کی تدریس کے گوناں گوں اور مختلف طریقے رہے ہیں جن کو گزشتہ سالوں میں طلاب علوم دینیہ کے درمیان آزمایا گیاہے ان میں سے ہر ایک کے اندر خوبی اور عیب دونوں پائے جاتے ہیں اور ان میں موضوعی اور متنی طریقے بھی شامل ہیں ۔

 

متنی طریقہ : متنی روش میں فقہ اور اصول کے موضوع پر جامع اورعلمی کتابیں جن کو حوزہ کے بعض بزرگوں اور اساتذہ کی تائید حاصل ہو تی تھی انھیں درس کے متن کے عنوان سے منتخب کر لیا جاتا تھا اس انتخاب میں نہ تو کوئی تحقیق ہی ہوتی تھی اور نہ ہی کوئی ٹھوس ارادہ کار فرما ہوتا تھا ۔ اس روش میں تدریس کی مدت کا طولانی ہونا ، متن کا دشوار اور غیر مانوس ہونا ، اور صحیح فائدہ نہ اٹھانا ، ایسے وجوہات تھے جس کی بنا پر تشنگان علم و حکمت کیلئے اس کا حاصل کرنا دشوار اور مشکل ہوتا تھا ۔

 

موضوعی طریقہ : ( خارج اصول و فقہ ) موضوعی روش میں کوئی خاص متن مورد نظر نہیں ہوتا بلکہ صرف درس کا موضوع معین ہوتا ہے اور ا ستاد اپنے ذوق اور سلیقے کے مطابق اپنے نظریے کو بیان کرتا ہے اور بعد میں قرائن اور شواہد اور دلیل کی بنیاد پر ان کا دفاع کرتا ہے اور دوسری طرف شاگرد بھی اشکالات اور اعتراضات بیان کر کے بحث کی پیشرفت اور اس کے رشد و شکوہ میں مزید اضافہ کرتے ہیں ۔

اس روش میں اگر چہ بعض امتیازات اور خوبیاں موجود ہیں اور شاگردوں کی تربیت اور پیشرفت میں اس سے بڑی مدد ملتی ہے لیکن یہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دروس کے طولانی ہونے کا سبب بنتی ہے کیوں کہ اس میں کسی ایک موضوع پر بحث کرنے کے لئے ہفتے ،مہینے اور سال لگ جاتے ہیں اور اس میں کوئی خاص اور کار آمد نتیجہ بھی سامنے نہیں آتا ۔ اسی طرح بعض ایسے مسائل اور موضوعات حوزوی علوم میں شامل ہو گئے ہیں جیسے بحث موضوع علم ، جامد و مشتق ، صحیح و اعم وغیرہ جن کی بنا پر اصلی مسائل اور بحثیں پس پردہ چلی گئی ہیں اور انکے حجم میں بہت اضافہ ہو گیا ہے جبکہ ان میں سے بعض مسائل اور موضوعات کا احکام کے استنباط سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو بہت کم ، لیکن اس کے باوجود طلاب کا زیادہ تر وقت انہیں موضوعات پر صرف ہوتا ہے ۔

اس نکتہ کو یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ آج کل طلاب اور شاگردوں کی تعداد زیادہ اور دروس میں بھیڑ ہوجانے کی بنا پر دروس خارج کی کیفیت میں بہت زیادہ کمی آگئی ہے ۔

حضرت آیت اللہ العظمیٰ جناتی نے حوزہ علمیہ میں تدریس کے دونوں قوی اور ضعیف پہلوؤں پر نظر رکھنے کے ساتھ اور اپنے نصف صدی کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور قم و نجف کے مایہ ناز فقہاء سے فیض اٹھانے کے بعد تحقیق وتدریس کے میدان میں ایک نئی روش کی بنیاد ڈالی ہے ۔آپ درس خارج فقہ و اصول کی تدریس میں حوزہ علمیہ کے درسی امتیاز اور خوبیوں کو برقرار رکھتے ہوئے صحیح اور درست مطالب کے انتخاب اور بے نتیجہ و اضافی مطالب کو نظر انداز کرنے پر زور دیتے ہیں اور فقہ و اصول کی خالص اور مفید بحثوں کو احیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس روش میں استاد اپنے نظریات سے دفاع کرتے ہیں اور شاگرد بھی مکمل تیاری کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں اور درس پڑھنے کے علاوہ اجتہاد اور نظریات بیان کرنے کا انداز سیکھتے ہیں ۔

آیت اللہ العظمیٰ جناتی کی درسی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ کی تدریس میں تلامذہ خاص طور پر محور ہوتے ہیں اور استاد محوری کہیں نظر نہیں آتی ۔ تدریس کے دوران آپ شاگردوں کے حوصلے بلند کرتے اور انہیں تشویق کرتے ہیں اور انہیں استنباط کی عملی طور پر راہ بتاتے ہیں اور ہر مسئلے کے جزئیات اور فرعیات کو پیش کرتے ہیں لہذا واضح الفاظ میں آپ کی اس روش کو سنتی اور جدید روش کا مجموعہ کہا جا سکتا ہے جو حوزہ میں طلاب کی ذہنی پرورش کے لئے بہت ہی مفید اور کار آمدثابت ہو گی آپ اس روش پر گامزن ہیں ۔ البتہ حوزہ میں تعلیمی اصلاح کے لئے یہ ایک معمولی قدم ہے کہا جاتا ہے کہ آپ نے حوزہ میں مطلوب اور قابل قبول نظام ایجاد کرنے کیلئے بہت سے نظریات اور فارمولے پیش کئے ہیں جو اپنے مقام پر بیان ہوچکے ہیں ۔